21.1 C
Delhi
جنوری 23, 2025
Samaj News

زکوٰۃ کے بعض معاصر مسائل

پرویز یعقوب مدنی
خادم جامعہ سراج العلوم السلفیہ جھنڈانگر نیپال

اس زمانے میں زکوۃ سے متعلق کئی مسائل سامنے آئے ہیں جن میں سے کچھ مسائل کا تذکرہ کیا جا رہا ہے۔
مسئلہ نمبر ایک:
کاغذی نوٹوں کی زکوۃ:کاغذی کرنسی یا کاغذی نوٹ ایک مستقل اور قائم بالذات نقدی ہے اس کا بھی حکم چاندی اور سونے کا ہے۔ ہر ملک کی کرنسی مستقل طور پر ایک الگ جنس تسلیم کی جاتی ہے۔ اس میں زکوۃ واجب ہے، ان کرنسی نوٹوں میں سود کی دونوں قسمیں ربا الفضل اور ربا النسیئۃ (یعنی بڑھوتری والا سود اور ادھار والا سود) جاری ہوتی ہیں کیوں کہ سونے چاندی پر قیاس کرتے ہوئے ان نوٹوں کی قیمت کا اعتبار کیا جاتا ہے۔نقدی اوراق میں زکوۃ کی واجب مقدار عشر یعنی دسویں حصے کا چوتھائی دوسرے لفظوں میں ڈھائی فیصد ہے، خواہ انہیں کسی بھی مقصد کی خاطر جمع کیا گیا ہو۔ چنانچہ جو بھی شخص تجارت کے مقصد سے، شادی کی نیت سے، گھر خریدنے کی غرض سے یا اس جیسی کسی اور ضرورت کے لیے جمع کرتا ہے تو مقصد سے قطع نظر اس آدمی پر زکوۃ واجب ہے، بشرطیکہ وہ رقم نصاب کو پہنچ رہا ہو اور جمع شدہ نقدی پر سال گزر جائے۔
نقدی کاغذی کرنسی کا نصاب زکوٰۃ کیا ہے؟
اس کا نصاب یہ ہے کہ کاغذی نوٹ کی مالیت سونے اور چاندی دونوں میں سے کم ترین نصاب تک پہنچ جائے، عموما چاندی کا نصاب سونے کے نصاب سے کم ہوتا ہے چنانچہ ریال کی زکوۃ نکالتے وقت ایک گرام چاندی کی قیمت ریال میں دیکھی جائے گی اور وہ رقم چاندی کے نصاب میں ضرب کر دی جائے گی جو کہ 595 گرام چاندی ہے۔ چنانچہ ریال میں 595 گرام چاندی کی جو قیمت ہو اتنے ریال کاغذی نوٹوں کا نصاب ہے۔
مسئلہ نمبر دو:
جاری حساب یعنی چالو کھاتے کی زکوۃ:وہ نقدی مقدار جو بینک کے چالو کھاتے میں رکھے گئے ہوں یہ گراہک کی طرف سے بینک کو قرض ہوتا ہے اور معلوم ومتحقق ہے کہ بینک ایک مالدار اور سرمایہ دار پارٹی ہے جب بھی گراہک مکمل مبلغ یا کچھ مبلغ اس سے مانگنا چاہے گا تو بینک اسے وہ رقم دے دے گا اور قرض جب مالدار آدمی کے ذمے ہو تو راجح قول کے مطابق اس کی زکوۃ قرض دینے والے پر ہر سال واجب ہوگی بشرطیکہ وہ نصاب کو پہنچ جائے چنانچہ گراہک پر اپنے چالو کھاتے میں موجود مال کی زکوۃ دینا واجب ہے جب اس کے چالو کھاتے میں موجود رقم نصاب کو پہنچ جائے اور نصاب تک پہنچنے کے بعد ایک سال گزر جائے۔
مسئلہ نمبر تین:
زکوۃ نکالنے میں قمری سال کا اعتبار:زکوۃ کے سلسلے میں سن ہجری اور قمری مہینوں کا اعتبار کیا جائے گا عیسوی سن اور اسی طرح شمسی مہینوں یا اس قسم کے دیگر غیر قمری مہینوں کا اعتبار نہیں ہوگا اللہ تعالی فرماتا ہے: {يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَهِلَّةِ قُلْ هِيَ مَوَاقِيتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ} [البقرة : 189]لوگ تم سے نئے چاند کے بارے میں دریافت کرتے ہیں کہہ دو کہ وہ لوگوں کے (کاموں کی میعادیں) اور حج کے وقت معلوم ہونے کا ذریعہ ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اللہ رب العالمین نے بتلادیا ہے کہ یہ لوگوں کے لئے وقت طے کرنے کا ذریعہ ہے اور یہ تمام معاملات میں عام ہے۔ اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے: {إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِندَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ} [التوبة : 36]اللہ کے نزدیک مہینے گنتی میں (بارہ ہیں یعنی) اس روز (سے) کہ اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا۔ اللہ کی کتاب میں (برس کے) بارہ مہینے (لکھے ہوئے) ہیں۔ابو عبداللہ قرطبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ خواہ عبادات ہوں یا غیر عبادات تمام چیزوں میں ان کے احکام کو ان ہی مہینوں اور سنین سے متعلق کرنا واجب ہوگا جنہیں عرب جانتے تھے ان کا ان مہینوں سے تعلق نہیں ہوگا جنہیں اہل عرب کے علاوہ اہل عجم اہل روم اور قبطی لوگ جانتے اور جن کا اعتبار کیا کرتے تھے۔
مسئلہ نمبر چار:
ماہانہ تنخواہ کی زکوۃ: جب ملازم کی پہلی تنخواہ پر ایک سال گزر جائے تو وہ آدمی دیکھے گا کہ جتنی بھی اس کے پاس مجموعی تنخواہ جمع ہے جو نصاب کے مقدار یا اس سے زیادہ ہے پھر اس پہ زکوۃ دے گا مجموعی رقم میں سے جتنی رقم پر ایک سال بیت جائے تو اس کی زکوۃ واجب ہے اور جس پر سال نہ مکمل ہواہو تو اس کی زکوۃ معجل ہوگی۔ زکوۃ ایک سال یا دو سال کے لیے معجل یعنی پہلے کرنا جائز ہے اور یہ لوگوں کے لیے زیادہ آسان ہے البتہ جو شخص چاہے کہ اپنا پورا پورا حق لے اور صرف اتنی ہی زکوۃ دے جتنی اس کے اوپر واجب ہے تو اس کے اوپر واجب ہے کہ وہ اپنے لیے اپنی کمائی و ملکیت کی ابتداء کے حساب سے ایک جدول وچارٹ تیار کرے جس میں اس رقم کا ہر حصہ خاص کر دے جس دن سے اس کی ملکیت شروع ہوئی ہو۔ چنانچہ ہر مبلغ کی علیحدہ زکوۃ اس دن الگ نکالے گا جب اس کی ملکیت کے دن سے اس پر سال گزر جائے۔اور تنخواہوں کے حکم میں ہر وہ چیز شامل ہے جس کا انسان الگ الگ اوقات میں مالک ہوا ہو بشرطیکہ وہ پہلی رقم یا سامان سے نہ نکلی ہو اور نہ اس سے پیدا ہوئی ہو بلکہ وہ مستقل ہو مثلاً وہ مال جو اسے وراثت، ہبہ، اجرت اور غیر منقولہ جائیداد وغیرہ کے طور پر حاصل ہو۔
مسئلہ نمبر 5 :
نوکری کے اختتام پر حاصل شدہ انعامی رقم کی زکوۃ (پی ایف فنڈ کی زکوٰۃ):یہ پی ایف ایسا مالی حق ہوتا ہے جس کو ایک مالک شخص محدود شرائط کے ساتھ لازم کرتا ہے یہ رقم اجیر مزدور اور ملازم و کام کرنے والے کو اس کے حسن کارکردگی یا اختتام ملازمت پر دی جاتی ہے۔ مالک آدمی اس کو ایک ہی دفعہ میں متعین نقدی دیتا ہے تو اس مخصوص فنڈ یا اجرت کی زکوۃ عامل یا کام کرنے والے پر واجب نہیں ہے جب تک اس کے ہاتھ میں یہ فنڈ آ نہ جائے۔ کیونکہ وجوب زکوۃ کے شرائط میں سے ایک بڑی شرط ملکیت تامہ ہے اور یہ ملکیت تامہ پی ایف فنڈ وغیرہ میں ثابت نہیں ہوتی جب تک کہ وہ انسان اپنے ہاتھ میں وہ فنڈ حاصل نہ کر لے یا انسان وہ انعامی رقم نہ پا جائے کیونکہ ایک انسان اس بدلے یا اس فنڈ کا مستحق خدمت و نوکری ختم ہونے کے وقت ہوتا ہے اس سے پہلے نہیں ہوتا چنانچہ یہ رقم مالک کی ملکیت میں باقی رہتی ہے یہاں تک کہ عامل کا عقد و معاملہ ختم ہو جائے چنانچہ یہ مزدور کی ملکیت میں وصولنے سے پہلے داخل نہیں ہوتی پھر جب اجیر عامل مزدور وہ رقم حاصل کر لے گا اور اس پر ایک سال گزر جائے گا اس حال میں کہ وہ اسی کے پاس ہو یا اس کا کچھ حصہ اس کے پاس ہو اور نصاب تک پہنچ رہا ہو تو اس میں زکوۃ واجب ہوگی .
و صلی اللہ وسلم علی نبینا محمد اجمعین

Related posts

نوٹ بندی چھوٹے کاروباریوں اور کاشتکاروں پر حملہ تھا:راہل گاندھی

www.samajnews.in

سڑک پر پرندوں کی طرح اڑیں لڑکیاں

www.samajnews.in

فلم ’پٹھان‘ پوری دنیا میں کمائی کرنے والی پہلی ہندی فلم

www.samajnews.in