سہارنپور، سماج نیوز:(احمد رضا) عالم دین قاری زبیر احمد نے ایک بیان میں واضع کیا کہ مسلم طبقہ کسی بھی صورت یو سی سی کو قبول نہیں کریگا سرکار کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ عوام کی بہتری اور اصلاحات کے لئے کام انجام دے عوام کی آذادی اور ان کے بنیادی حقوق کو سلب کرنے کے لئے سرکاری اقدام ہر صورت قابل مذمت کار کر دگی ہے ملک کا مہذب عوام اس حرکت کو قول نہیں کرے گا۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے با وقار صدر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی اور جنرل سکریٹری مولانا فضل الر حیم مجددی مدظلہ کے ساتھ تمام مسلک ومکتب فکر کے قائدین نے بھی یہ واضح کر دیا ہے کہ ہم مسلم پرسنل لا بورڈ کے ساتھ ہیں ہمیں یکساں سول کوڈ منظور نہیں، یہ مہم در اصل انہیں امور کا اعلان ہے، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے لا کمیشن کو آرا بھیجنے کی مہم سے آگے بڑ کر کچھ کرنے کو ابھی منع کیاہے،ا حتجاج، جلوس، بڑے اجلاس، دھرنا اور سڑکوں پر آنے سے بھی روکاہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ابھی وہ مرحلہ نہیں آیا ہے، ہوسکتا ہے بعد میں نفقہ مطلقہ او رشاہ بانو کیس کی طرح اس کی بھی ضرورت پڑے، لیکن ابھی قائدین نے ان کاموں سے منع کیا ہے، اس لیے ہماری سعادت مندی یہ ہے کہ ابھی ان چیزوں سے باز رہیں، اتنا ہی کریں، جتنا ان کی طر ف سے ہدایت ہے، جوش وجذبہ اچھی چیز ہے، لیکن ہوش کی بات یہ ہے کہ ابھی ہمیں قائدین کے چشم وابرو کا انتظار کر نا چاہیے، کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارا غیر معمولی جوش وجذبہ ہمارے معاملہ کو دوسرا رخ دیدے، جو ہمارے لیے اور ساری ملت کے لئے ضرر رساں ثابت ہو اسلئے لازم ہے ک ہم علماء کرام کے حکم کا احترام کریں کرائیں نیز ملت کو نقصان پہنچانے والے عمل سے پرہیز بھی کریں!ملت اسلامیہ میں اختلافات کی بابت ہمارے بزرگ عالم دین مفکر اسلام مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار نے تو پہلے سے ہی یہ واضع کر دیا تھا کہ مسلمانوں میں قیادت کا فقدان نہی ہے حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی ؒ فرمایا کرتے تھے کہ فقدان قیادت کا نہیں، پیچھے چلنے والوں کا ہے، سمع وطاعت کے جذبے سے کام کرنے والوں کا ہے، واقعہ یہی ہے کہ مسلم قیادت کے لیے بڑے بڑے لوگ سامنے آئے، اپنی ساری طاقت، توانائی، مال ودولت آرام وسکون قوم وملت کے مفاد پر قربان کر دیا، اپنے آشیانہ کو پھونک کر زمانہ کو روشنی بخش دی، ایک زمانہ میں پذیرائی بھی ہوئی، لوگوں نے فنائیت کا مظاہرہ بھی کیا، اور پھر دھیرے دھیرے جوش ٹھنڈا ہو گیا، اور لوگ پرانی روش پر آگئے، قائدین پکارتے رہے آواز لگاتے رہے منصوبے بناتے رہے، لیکن ان منصوبوں میں رنگ بھرنے کے لیے جس صلاحیت کی لوگوں کو ضرورت تھی اور جنہیں آگے آنا چاہیے تھا، وہ نہیں آسکے اور ان منصوبوں کو عملی رنگ وروپ دینا ممکن نہیں ہو سکا، اس لیے ضرورت ہے کہ قائدین کی باتوں کو ما نیں،ا ن کے بنائے ہوئے خطوط پر چلیں، بغیر اجازت کے نہ آگے بڑھیں اور نہ پیچھے ہٹیں سمع وطاعت کا مطلب یہی ہے کہ بات سمجھ میں آئے یا نہیں، جس کو قائد مان لیا، اس کی مانیں گے، اس کے نقش قدم کی پیروی کریں گے، ایمان والوں کی یہی صفت بیان کی گئی ہے، سمعنا واطعنا، اس کے بر عکس بے ایمانوں کا معاملہ رہا ہے، وہ سنتے تو ہیں، لیکن مان کر نہیں دیتے، صرف سننا کافی نہیں ہے، اگر کوئی مریض حکیم کے پاس جائے، اس سے دوا لکھوا لائے، نسخہ کو بار بار پڑھے بھی،لیکن دوانہ خریدے،استعمال نہ کرے، تو مرض صرف نسخے کو پڑھنے سے دور نہیں ہو گا، دوا کڑوی کسیلی ہو، کھانے پر جی بھی متلائے، لیکن۔ اگر آپکو صحت یاب ہونا ہے تو دواخریدنی ہی ہوگی دوا کا استعمال بھی کرنا ہوگا تبھی مرض دور ہوگا آج کے سماجی مسائل وامراض کو دور کرنا ہے تو اس کا واحد طریقہ قائدین کی باتوں کو ماننا ہی ہوگا اسلئے ادھر ادھر کی فضول باتوں میں نہ پڑ کر۔