Samaj News

یوم عید الاضحی ،نماز عید اور قربانی باعث سعادت ونجات

مولانا محمد ممشاد علی صدیقی
رب کائنات کا انسان جتنا بھی حمد وستائش میں وقت لگائے پھر بھی وہ کم ہے۔انسان کو پیدا کیا اس سے قبل اور مابعد بہت سارے دیگر چیزوں کو وجود بخشے اور سب پر فوقیت دیتے ہوئے اولادآدم کو اشرف المخلوقات بنادیا اور سب کو اس کی خدمت پر معمور کرتے ہوئے ان کو اپنی قیمتی لمحات کو یاد الٰہی میں لگانے کا تقاضارکھا۔ہر موسم اور حالات میں اس کی ترقی وعروج کیلئے مختلف اعمال رکھے جس کے ذریعہ اس کو اعلیٰ سے اعلیٰ مقام نوازے جانے کا وعدہ کیا گیا۔اسی میں کا ایک ماہ عید الاضحی ہے جس میں حج وقربانی اور نماز عید الاضحی کے ذریعہ ثواب کثیرہ عطاء کیا جاتاہے۔اسی لئے کہاجاتاہے کہ عید الاضحی کا دن ہر مسلمان کیلئے بہت ہی زیادہ اہمیت رکھتا ہے کیونکہ اس دن اللہ کی راہ میں قربانی دی جاتی ہے۔عید الاضحی ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کو منائی جاتی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ آزمائشی طور پر بیٹے کی قربانی مانگی تو انہوں نے اپنے لخت جگر کو قربان گاہ میں لیجاکر قربانی کردینا چاہاجہاں خلیل اللہ ابراہیم ؑ کے ساتھ ہونہار وخوش نصیب فرزند ارجمند حضرت اسماعیل ذبیح اللہ ؑوہ مقام ومرتبہ پایا جس کی نظیر روئے زمین پر نہ دیکھا نہ سناگیا ہے لیکن اللہ کے حکم سے ان کے بیٹے کی جگہ دنبے کی قربانی ہوگئی۔اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی پسند فرمائی۔اس دن کو ہم عید الاضحی کے نام سے مناتے ہیں۔عید الاضحی کے دن اللہ کی راہ میں اونٹ بکری یا کوئی بھی جانور کی قربانی کرسکتے ہیں۔قربانی کے گوشت کو غریبوں اور رشتے داروں میں تقسیم کیا جاتاہے۔عید الاضحی کے دن قربانی کرنے کے وقت تک روزہ رکھنے کی بڑی فضیلت ہے۔اس دن کی عبادت اللہ کو بہت زیادہ پسند ہے۔عید الاضحی کی نماز عید گاہ میں پڑھنے کا بہت زیادہ ثواب ہے۔عید الاضحی کی نماز ادا کرنے کے بعد قربانی کی جاتی ہے۔ہر وہ انسان جس کے پاس مال کی فراوانی ہے اس پر قربانی فرض ہے۔اسلام ایک انقلابی پیغام ہے۔اسلام ایک خدائی آواز ہے۔اسلام ایک مستحکم ضابطۂ حیات اور اصول مصطفی ﷺ کا نام ہے۔اسلام نے ہمیں عید الاضحی جیسا تہوار کے ساتھ ساتھ سنت ابراہیمی کو زندہ کرنے کا بہترین موقع فراہم کیا ہے جس کے کچھ ضابطے اور اصول ہیں۔
ہمیشہ ایک اصول کارفرما رہا کہ جو اعمال جتنی اہمیت کا ہوتا ہے اس کا اہتمام والتزام بھی اسی انداز سے کیا جاتاہے ۔یوم الاضحی معنی خیز اور اولاد آدم کو ترقی وعروج کے اعلیٰ مدارج پر فائز کرنے والا دن ہے اسی اس دن کے تمام اعمال کا روبہ عمل لانے کیلئے اہتمام وانتظام کا طریقہ بتایا گیا ہے کہ عید الاضحی کے دن مستحب :حجامت بنوانا،ناخن کاٹنا،مسواک کرنا،عمدہ لباس زیب تن کرنا،خوشبو لگانا،فجر کی نماز محلہ کی مسجد میں ادا کرنا،عید گاہ جلدی جانا،نماز سے پہلے کچھ صدقہ کرنا،عید گاہ پیدل جانا،ایک راستہ سے عید گاہ جانا اور دوسرے راستہ سے واپس آنا،خوشی کا اظہار کرنا،صدقہ وخیرات کرنا،عید گاہ کو وقاراطمینان کے ساتھ جانا،آپس میں ایک دوسرے کو مبارکباد پیش کرنا،نماز عید الاضحی سے پہلے کچھ نہ کھانا۔نماز عید الاضحی دس ذی الحجہ کے دن ادا کیجاتی ہے اس کا وقت ایک یا دونیزوںکے برابر سورج بلند ہونے کے بعد سے شروع ہوتاہے اور زوال شمس سے پہلے تک باقی رہتاہے۔
نماز عید الاضحی کا طریقہ:پہلے اس طرح نیت کریں کہ نیت کی میں نے دو رکعت نماز عید الاضحی کی واجب چھ زائد تکبیروں کے ساتھ پیچھے اس امام کے منہ میرا کعبہ شریف کی طرف اللہ اکبر کہتے ہوئے دونوں ہاتھوں کو کانوں تک اٹھاتے ہوئے ناف کے نیچے باندھ لیں اور ثنا پڑھیں۔سبحانک اللھم وبحمدک وتبارک السمک وتعالیٰ جدک ولاالٰہ غیرک‘پھرتین بار تکبیر لگاتے ہوئے کانوں تک ہاتھ اٹھائیں،پہلے دوتکبیر میں ہاتھ چھوڑدیں اور تیسری تکبیر میں ہاتھ باندھ لیں۔اب امام سورہ فاتحہ اور اس کے ساتھ کوئی سورہ کی قرأت کریں گے آپ خاموشی سے سنیں جیسے ہی قرأت مکمل ہوجائی گی ،امام رکوع وسجود کریں گے آپ بھی ان کے ساتھ ساتھ اپنا رکوع اور سجدہ مکمل کریں گے اب امام دوسری رکعت کیلئے جب کھڑے ہوں گے تو آپ بھی کھڑے ہوجائیںگے۔دوسری رکعت کیلئے جب کھڑے ہوں گے تو آپ بھی کھڑے ہوجائیں گے۔دوسری رکعت میں سورہ فاتحہ اور اس کے ساتھ کوئی سورہ کی قرأت کریں گے جیسے ہی قرأت مکمل ہوگی امام چار تکبیر لگائیں گے پہلے تین تکبیر میں اپنے دونوں ہاتھوں کو کانوں تک اٹھاکر چھوڑدیں گے اور چوتھی تکبیر میں بغیر ہاتھ اٹھائے امام کے ساتھ رکوع میں چلے جائیں گے اس کے بعد اور نمازوں کی طرح باقی ارکان کو مکمل کریں گے۔بعدہٗ امام خطبہ دیں گے۔آپ بغور سماعت کریں۔خطبہ مکمل ہوتے ہی امام کے ساتھ دعاء کیلئے ہاتھ اٹھائیں جہاں اپنے لئے دعاء کریں وہی پوری امت مسلمہ کیلئے بھی دعاء کریں۔ایام تشریق:نویں ذی الحجہ کی فجر سے تیرہویں کی عصر تک پانچوں وقت کی ہر فرض نماز کے ب عد جو جماعت مستحبہ کے ساتھ ادا کی جاتی ہے۔ایک بار بلند آواز سے تکبیر کہنا واجب اور تین بار کہنا افضل ہے۔اس کو تکبیر تشریق کہتے ہیں اور وہ یہ ہے:اللہ اکبر اللہ اکبرلاالٰہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر۔
قربانی کا حکم:قرآن مقدس میں اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے’’فصل لربک وانحر‘‘اے محبوب آپ نماز پڑھئیے اور قربانی کیجئے‘۔امام بیضاوی ؒاس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں’’وقدفسرت الصلوٰۃ صلوٰۃ العید والنحر بالتضحیۃ‘(بیضاوی شریف)صلوٰۃ سے مراد عید کی نماز اور نحر سے مراد قربانی کا جانور ذبح کرنا ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ پہلے نماز عید پڑھو،اس کے بعد قربانی کرو۔حضور اکرم ﷺ نے فرمایا آج کے دن ہم جس کام کو سب سے پہلے کریں گے وہ یہ ہے کہ ہم نماز عید پڑھیںگے اس کے بعد ہم قربانی کریں گے سوجس نے اس طرح کیا اس نے ہماری سنت کو پالیا اور جس نے (پہلے) ذبح کرلیا تو وہ گوشت ہے جس کو اس نے اپنے گھر والوں کیلئے تیار کیا ہے اس کا قربای سے کوئی تعلق نہیں ہے حالانکہ حضرت ابوبردہ بن نیاز اس سے پہلے ذبح کرچکے تھے انہوں نے کہا میرے پاس ایک چھ ماہی بکری ہے جو ایک سال کی بکری سے بہتر ہے۔آپ نے فرمایا تم اس کو ذبح کرو اور تمہارے بعد یہ یعنی چھ ماہ کی بکری کسی اور کیلئے درست نہیں ہوگی‘‘۔(مسلم شریف)
قربانی کا جانور ذبح کرنے کا طریقہ اور بخشش کا سبب:حضرت علی ؓبیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت فاطمہ ؓسے فرمایا اے فاطمہؓ اپنے قربانی کے جانور کے پاس کھڑی بے شک قربانی کے پہلے خون کے قطرے کے ساتھ تمہارے تمام پچھلے گناہوں کی مغفرت کردی جائے گی اور سنو!قربانی کا جانورقیامت کے دن اپنے گوشت اور خون کے ساتھ لایاجائے گا اور اس کو ستر درجہ بڑھاکر تیرے میزان میں وزن کیا جائے گا۔حضرت ابوسعید خدری نے کہا کہ صرف آل محمد ﷺکے ساتھ مخصوص ہے کیونکہ وہ اس خیر کے اہل ہیں؟یا یہ آل محمد ﷺ اور تمام لوگوں کیلئے ہے‘‘۔طریقۂ قربانی:قربانی کا طریقہ یہ ہے کہ جانور کو بائیں پہلو پر اس طرح لٹائیں کہ اس کا منہ قبلہ کی طرف ہو۔پھر دعا پڑھیں’’انی وجہت وجہی للذی فطر السمٰوات والارض حنیفا وما انا من المشرکین ان صلاتی ونسکی ومحیای ومماتی للہ رب العالمین لاشریک لہ وبذالک امرت وانا من المسلمین‘‘اور جاور کے پہلو پر اپنا داہنا پائوں رکھ کر اللھم لک ومنک بسم اللہ اللہ اکبر پڑھ کر تیز چھری سے جلد ذبح کردیں اور ذبح کے بعد یہ دعاء پڑھیں:اللھم تقبل منی کما تقلبت من خلیلک ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام وحبیبک محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اگر دوسرے کی طرف سے قربانی کرے تو منی کے بجائے من کہہ کر اس کا نام لے۔
ان جانوروں میں سے افضل ترین قربانی کس کی ہوگی؟:اگر گائے کا ساتواں حصہ اور بکری کا گوشت اور قیمت برابر ہو تو بکری افضل ہے۔دنبہ دنبی سے افضل ہے۔بھیڑ مینڈھے سے افضل ہے جبکہ وہ قیمت میں برابر ہوں،اونٹنی اور گائے اونٹ اور بیل سے افضل ہیں جبکہ وہ قیمت میں برابر ہوں۔خصی جانور کی قربانی نر کی بنسبت افضل ہے کیونکیہ اس کاگوشت لذیر ہوتا ہے۔(درمختار)قربانی کے جانوروں میں درج ذیل شرائط کا لحاظ رکھنا ضروری ہے:قربانی کا جانور تمام عیوب فاحشہ سے سلامت ہوں۔حضرت براء بن عازب ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ ہمارے پاس کھڑے تھے اور فرمایا کہ وہ جانور جس میں درج ذیل عیب ہوں اس کی قربانی کرنا جائز نہیں۔ کانا ہو،اور اس کانا ہونا ظاہر ہو،وہ بیمار ہو جس کا مرض ظاہر ہو،وہ لنگڑا ہو جس کا لنگڑا پن ظاہر ہو،وہ ایسا بوڑھا ہو جس کی ہڈیوں میں گودا نہ ہو۔وہ جانور جس کے دونوں کان کٹے ہوئے ہوں یا اس کا ایک کان مکمل کٹا ہوا ہو،یا دنبے کی پیدائشی لاٹ نہ ہو،یا اس کی پیدائشی دم نہ ہو یا اس کی دم تیسرے حصہ سے زائد کٹی ہو یا بکری کا ایک تھن غائب ہو یا بھینس ،گائے اور اونٹنی وغیرہ کے دو تھن نہ ہو تو ایسے جانوروں کی قربانی جائز نہیں۔قربانی دس ذی الحجہ سے شروع ہوکر بارہ ذی الحجہ کے سورج غروب سے قبل تک کا وقت ہے البتہ جہاں عیدین کی نماز ہوتی ہو وہاں نماز عید الاضحی اداکرنے کے بعد قربانی والا عمل کیا جائے۔یہ بات ذہن نشین رہے کہ رات کے وقت قربانی ذبح کرنا مکروہ ہے۔ دسویں تاریخ کو قربانی کرنا افضل ہے اور اس دن قربانی والا عمل اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب اور پسند ہے۔
قربانی کے گوشت کو مستحب ہے کہ تین حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے ایک حصہ غریبوں میں اور ایک حصہ رشتہ داروں اور ایک گھر والوں کیلئے استعمال میں لائیں تاکہ اس بہترین عمل سے ہرشخص استفادہ کرسکے اور عید کے خوشیوں میں سب برابر کے شریک رہ سکیں اگر کوئی ضرورت کے تحت پوری گوشت استعمال کرلیتا ہے تو کوئی گناہ نہیں ہوگا۔حضور اکرم ﷺ کا یہ معمول تھا کہ جب آپ ﷺ قربانی کرتے تو اس کے گوشت میں سے اپنے احباب،حضرت خدیجہ ؓ کے قریبی رشتہ داروں اور سہیلیوں میں تقسیم فرماتے تھے۔ قربانی کا گوشت قصاب کو اجرت میں دینا جائز نہیں۔ذبیحہ میں کچھ ایسی چیزیں پائی جاتی ہیں جن کا استعمال درست نہیں جیسے بہتا ہوا خون،الٰہ تناسل،کپورہ،پاخانہ کی جگہ،مثانہ،پتہ،غدود۔قربانی کی کھال بہتر یہی ہے کہ صدقہ کردیاجائے ہاں اگر خود استعمال کرنا چاہے تو کرسکتاہے بطور مصلی یا مشکیزہ،فروخت کرتے ہوئے اس رقم کو استعمال کرنا درست نہیں۔اس رقم یا چمڑہ کسی غریب،محتاج یا دینی مدارس میں دیتے ہوئے بہتر اجر کا حصول ممکن بنائیں۔اللہ رب العزت نے جو ہمیں ایسا پاکیزہ عمل عطاء کیا اس کواللہ ورسولﷺ کے بتائے طریقوں پر بحسن خوبی عمل کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ اجر حاصل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔

(مولانا)محمد ممشاد علی صدیقی

آزاد صحافی وبانی وناظم ادارہ مبین العلوم قاسمیہ
mumshadrahi@gmail.com:9030825540
اویسی ہلز،انصاری روڈ،میر عالم فلٹر،حیدرآباد،تلنگانہ ،الہند-500052

Related posts

جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے ڈاکٹر ابو عمر پرویز نکوا عمری مدنی نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی

www.samajnews.in

NDTVبورڈ میں اڈانی کی انٹری، پرنئے اور رادھیکا رائے کا استعفیٰ

www.samajnews.in

مودی اور ان کی ایجنسیاں کانگریس اجلاس کو ناکام نہیں کرسکتی:بھوپیش بگھیل

www.samajnews.in